امریکہ میں ریپبلکن پارٹی کی جانب سے صدارتی امیدوار بننے کے خواہش مند بین کارسن نے کہا ہے کہ امریکہ کا صدر کسی مسلمان کو نہیں ہونا چاہیے۔
مشہور ٹی وی چینل این بی سی کے پروگرام ’میٹ دی پریس‘ میں بین کارسن کا کہنا تھا وہ اس خیال کی وکالت نہیں کریں گے کہ ’اس قوم کا رکھوالا کسی مسلمان کو بنایا جائے۔ میں اس خیال سے قطعاً اتفاق نہیں کر سکتا۔‘
کئی جائزوں کے مطابق دماغی امراض کے ریٹائرڈ سرجن بین کارسن کو ریپبلکن پارٹی کے کارکنوں میں خاصی حمایت حاصل ہے۔
یاد رہے کہ بین کارسن کے اس بیان سے پہلے ریپبلکن پارٹی کی انتخابی دوڑ میں سب سے زیادہ مضبوط امیدوار سمجھے جانے والے رہنما ڈونلڈ ٹرمپ کو اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب وہ اپنے ایک حامی کی اس وقت تصحیح کرنے میں ناکام رہے تھے جب اس نے کہا تھا کہ صدر براک اوباما مسلمان ہیں۔
کارکن کی تصحیح نہ کرنے پر ڈونلڈ ٹرمپ کو نہ صرف ڈیموکریٹک پارٹی بلکہ اپنی جماعت کی جانب سے بھی شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا، تاہم ان کا کہنا تھا کہ ’یہ میرا کام نہیں ہے ‘ کہ میں صدر اوباما کا دفاع کروں۔
اسلام آئین سے متصادم
اتوار کو ارب پتی ڈونلڈ ٹرمپ کے سب سے بڑے مخالف بین کارسن کے ایک ٹی وی انٹرویو میں یہ کہنے کے بعد کہ کوئی مسلمان امریکہ کا صدر نہیں بن سکتا، ان کا یہ بیان امریکہ میں شہ سرخیوں میں پیش کیا جا رہا ہے۔
انٹرویو میں بین کارسن کا مزید کہنا تھا کہ امریکہ کے صدر کے لیے ضروری ہے کہ اس کا مذہب امریکی آئین سے مطابقت رکھتا ہو۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ آیا ان کے خیال میں اسلام امریکی آئین سے مطابقت رکھتا ہے تو بین کارسن کا جواب تھا: ’ نہیں۔ مجھے معلوم نہیں۔‘
اس سے قبل گذشتہ ہفتے ڈونلڈ ٹرمپ کو اس وقت شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا تھا جب ان کے سامنے ان کے ایک کارکن نے کہا کہ صدر اوباما ’نہ صرف مسلمان ہیں بلکہ وہ پیدائشی امریکی بھی نہیں۔‘
نہ صرف یہ بلکہ مذکورہ شخص نے ڈونلڈ ٹرمپ کے سامنے یہ بھی کہا کہ ’ ہمیں اس ملک میں ایک مسئلے کا سامنا ہے، اور یہ مسئلہ یہاں رہنے والے مسلمان ہیں۔‘
یاد رہے کہ صدر اوباما ماضی میں کھلے عام اپنے عیسائی ہونے کا اعتراف کر چکے ہیں، لیکن ڈونلڈ ٹرمپ ہمیشہ سے صدر اوباما کے عیسائی ہونے پر شک کا اظہار کرتے رہے ہیں۔
سنہ 2011 میں انھوں نے صدر اوباما کو چیلنج کیا تھا کہ وہ یہ ثابت کرنے کے لیے اپنا سرٹیفیکٹ پیش کریں کہ وہ کینیا میں پیدا نہیں ہوئے تھے۔ اس پر صدر اوباما نے اپنا برتھ سرٹیفیکیٹ دکھایا تھا جس کے مطابق وہ امریکی ریاست ہوائی میں پیدا ہوئے تھے۔
اتوار کو این بی سی پر انٹرویو کے دوران بین کارسن سے بھی پوچھا گیا کہ آیا وہ یقین کرتے ہیں کہ صدر اوباما واقعی امریکہ میں پیدا ہوئے تھے اور وہ مذہب کے لحاظ سے مسیحی ہیں۔
اس پر بین کارسن نے کہا کہ ’ مجھے یقین ہے کہ یہ بات درست ہے۔ میرے پاس کوئی وجہ موجود نہیں کہ میں اوباما کی بات پر شک کروں۔‘
ایک تازہ ترین جائزے کے مطابق ریپبلکن پارٹی میں صدارتی امیدواروں کی دوڑ میں اب بین کارسن تیسرے نمبر پر چلے گئے ہیں جبکہ مشہور کمپیوٹر کپمنی ایچ پی کی سابق سربراہ کارلی فیورینا دوسرے نمبر پر ہیں اور ڈونلڈ ڈرمپ بدستور پہلے نمبر پر ہیں۔
No comments:
Post a Comment