ماہرین نے کمپیوٹرز کی سکیورٹي کے لیے خطرہ قرار دیے جانے والے ایک اور سنگین ’بگ‘ یعنی خرابی کا پتہ چلایا ہے جس سے لاکھوں کمپیوٹر آلات، ایپس اور سروز متاثر ہونے کا خطرہ ہے۔
یہ خرابی اس قدر پیچیدہ ہے کہ ابھی یہ معلوم کرنا ذرا مشکل ہے کہ اس کے نتائج کتنے سنگین ہو سکتے ہیں۔ انگلینڈ میں سری یونیورسٹی میں سکیورٹی امور کے ماہر پروفیسر الین وڈورڈ کا کہنا کہ ’اس وقت بہت سے لوگ یہ معلوم کرنے کی کوشش میں مصروف ہیں کہ کیا یہ واقعی بہت ہی خطرناک ہے یا پھر ہم گولی سے بچ نکلے۔‘ یہ نیا وائرس یا بگ ’جی ایل آئی بی سی‘ نامی کوڈ میں پایا جاتا ہے جس کا زیادہ تر استعمال انٹرنیٹ سے آلات منسلک کرنے کے لیے کیا جاتا ہے اور اس کا ایک اہم کام ڈومین کی دیکھ بھال کرنا بھی ہوتا ہے۔ جی ایل آئی بی سی میں پائے جانے والے اسی وائرس کا ہیکرز غلط استعمال کر سکتے ہیں۔ اس سلسلے میں ریڈ ہیٹ کے سکیورٹی انجینیئروں کے ساتھ کام رکنے والے گوگل کے انجینیئروں نے اس سلسلے میں ایک ’سکیورٹی پیچ‘ بھی جاری کیا ہے۔ اب یہ مینیوفیکچررز اور لینکس آپریٹنگ سسٹم چلانے والی کمپنی پر منحصر ہے کہ وہ متاثرہ سافٹ ویئرز اور آلات کے لیے جتنی جلدی ممکن ہو سکے اس پیچ کو جاری کریں۔ اس وائرس سے متعلق گوگل کی ٹیم نے ایک بلاگ میں اس بات کی وضاحت کی ہے کہ کس طرح عام طور پر استعمال کیے جانے والے کوڈ کا استحصال کرتے ہوئے کمپیوٹر، انٹرنیٹ راؤٹرز یا ایسی ڈیوائسز سے منسلک دیگر اشیا تک وہاں موجود ہوئے بغیر رسائی حاصل کی جا سکتی ہے۔ واشنگٹن ڈي سی میں کمپیوٹر کی سکیورٹی پر تحقیق کرنے والے کینتھ وہائٹ کا کہنا ہے کہ ’یہ کوئی آسمان گرنے والی جیسی صورت حال نہیں ہے لیکن یہ سچ ہے کہ اس بات کا امکان ہے کہ اس سے انٹرنیٹ سے مربوط سروسز کو ہیکرز کی جانب سے سسٹم کریش کرنے اور ریموٹ کوڈ سے حملے کا خطرہ ہے۔‘ ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک کوڈ کی اس خامی کا فائدہ اٹھا کر کوئی ایسا حملہ نہیں ہوا ہے لیکن اس بات کا امکان ہے کہ ہیکرز کمزوریوں سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں گے۔
No comments:
Post a Comment